دوڑتا ہے خوں رگوں میں جذبۂ شبیر کا
اب نہیں ہے خوف ہم کو تیغ کا اور تیر کا
اک حرارت دوڑ جاتی ہے ہمارے خون میں
جب خیال آتا ہے دل میں حضرت شبیر کا
کہہ دو ان سے شرط ہے محنت، بلندی کے لئے
کرتے ہیں جو لوگ شکوہ کاتبِ تقدیر کا
اس زمیں کی خاک میں پیوند ہونا ہے ہمیں
مت بتاؤ راستہ لاہور کا کشمیر کا
غالب و اقبال و راحت کا میں پیروکار ہوں
یا الٰہی کر عطا لہجہ مجھے کچھ میر کا
اہل باطل کے جگر ہوتے ہیں لرزاں خوف سے
پڑھتے ہیں جب ہم ترانہ نعرۂ تکبیر کا
فیصلہ میراث کا راہی وہ کر پائیں گے کیا
حق ادا جو کر نہیں سکتے ہیں خود ہمشیر کا
عادل راہی جامنیری
No comments:
Post a Comment