فلک سے لے کے اجالے زمیں پہ رک جانا
مگر ہو شام جہاں بھی وہیں پہ رک جانا
گراں گزرتا ہے مجھ پر ترا یہ طرز سفر
سفر کے بیچ یکایک کہیں پہ رک جانا
جہاں ضمیر اشارہ کرے ٹھہرنے کا
قدم نہ آگے بڑھانا وہیں پہ رک جانا
تو آس پاس کے منظر بھی دیکھنا لیکن
اے چشمِ شوق رخِ نازنیں پہ رک جانا
اے نامہ بر مرا پیغام یار کو دے کر
جواب لینے تلک تو وہیں پہ رک جانا
جو مجھ سے پہلے سفر پر نکلنا پڑ جائے
تو میں جہاں بھی پکاروں وہیں پہ رک جانا
وہاں تو شور مسلسل ہے شاؔد سانسوں کا
یہاں سکون بہت ہے، یہیں پہ رک جانا
شمشاد شاؔد، ناگپور (انڈیا)
No comments:
Post a Comment