یوم پیدائش 21 نومبر 1968
کوئی شیشہ نہ در سلامت ہے
گھر مرا دشت کی امانت ہے
سارے جذبوں کے باندھ ٹوٹ گئے
اس نے بس یہ کہا اجازت ہے
جان کر فاصلے سے ملنا بھی
آشنائی کی اک علامت ہے
اس سے ہر رسم و راہ توڑ تو دی
دل کو لیکن بہت ندامت ہے
روبرو اس کے ایک شب جو ہوئے
ہم نے جانا کہ کیا عنایت ہے
دو قدم ساتھ چل کے جان لیا
کیا سفر اور کیا مسافت ہے
کل سیاست میں بھی محبت تھی
اب محبت میں بھی سیاست ہے
رات پلکوں پہ دل دھڑکتا تھا
تیرا وعدہ بھی کیا قیامت ہے
خواجہ ساجد
No comments:
Post a Comment