یوم پیدائش 12 نومبر 1923
دن گزرتا ہے کہاں رات کہاں ہوتی ہے
درد کے ماروں سے اب بات کہاں ہوتی ہے
ایک سے چہرے تو ہوتے ہیں کئی دنیا میں
ایک سی صورت حالات کہاں ہوتی ہے
زندگی کے وہ کسی موڑ پہ گاہے گاہے
مل تو جاتے ہیں ملاقات کہاں ہوتی ہے
آسمانوں سے کوئی بوند نہیں برسے گی
جلتے صحراؤں میں برسات کہاں ہوتی ہے
یوں تو اوروں کی بہت باتیں سنائیں ان کو
اپنی جو بات ہے وہ بات کہاں ہوتی ہے
جیسی آغاز محبت میں ہوا کرتی ہے
ویسی پھر شدت جذبات کہاں ہوتی ہے
پیار کی آگ بنا دیتی ہے کندن جن کو
ان کے ذہنوں میں بھلا ذات کہاں ہوتی ہے
احمد راہی
No comments:
Post a Comment