Urdu Deccan

Friday, November 12, 2021

شہناز نور

 یوم پیدائش 10 نومبر 1947


طاق جاں میں تیرے ہجر کے روگ سنبھال دیے

اس کے بعد جو غم آئے پھر ہنس کے ٹال دیے


کب تک آڑ بنائے رکھتی اپنے ہاتھوں کو

کب تک جلتے تیز ہواؤں میں بے حال دیے


وہی مقابل بھی تھا میرا سنگ راہ بھی تھا

جس پتھر کو میں نے اپنے خد و خال دیے


زرد رتوں کی گرد نے حال چھپایا تھا گھر کا

اک بارش نے دیواروں کے زخم اجال دیے


دھات کھری تھی جذبوں کی لیکن اجرت سے قبل

قسمت کی ٹکسال نے سکے کھوٹے ڈھال دیے


تازہ رت کے استقبال کی خاطر شاخوں نے

پیڑ کے سارے موسم دیدہ پات اچھال دیے


جن کو پڑھ کر پہلے ہنستی تھی پھر روتی تھی

آخر اک دن میں نے وہ خط آگ میں ڈال دیے


جن میں تھے مذکور حوالے تیری چاہت کے

نورؔ کتاب زیست سے وہ اوراق نکال دیے


شہناز نور


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...