یوم پیدائش 10 نومبر 1947
طاق جاں میں تیرے ہجر کے روگ سنبھال دیے
اس کے بعد جو غم آئے پھر ہنس کے ٹال دیے
کب تک آڑ بنائے رکھتی اپنے ہاتھوں کو
کب تک جلتے تیز ہواؤں میں بے حال دیے
وہی مقابل بھی تھا میرا سنگ راہ بھی تھا
جس پتھر کو میں نے اپنے خد و خال دیے
زرد رتوں کی گرد نے حال چھپایا تھا گھر کا
اک بارش نے دیواروں کے زخم اجال دیے
دھات کھری تھی جذبوں کی لیکن اجرت سے قبل
قسمت کی ٹکسال نے سکے کھوٹے ڈھال دیے
تازہ رت کے استقبال کی خاطر شاخوں نے
پیڑ کے سارے موسم دیدہ پات اچھال دیے
جن کو پڑھ کر پہلے ہنستی تھی پھر روتی تھی
آخر اک دن میں نے وہ خط آگ میں ڈال دیے
جن میں تھے مذکور حوالے تیری چاہت کے
نورؔ کتاب زیست سے وہ اوراق نکال دیے
شہناز نور
No comments:
Post a Comment