کام کیا نفرت نے اپنا عشق نے اپنا کام کیا
دار و رسن کو تم نے سجایا سر ہم نے نیلام کیا
ایسے بھی کچھ راہ طلب میں ہم نے مسافر دیکھے ہیں
دھوپ سے ہمت ہار گئے تو سائے کو بدنام کیا
وقت یہ سب سے پوچھ رہا ہے جہدو عمل کی منزل میں
کس کس نے تلوار اٹھائی کس کس نے آرام کیا
ایک ہی صورت باقی تھی سو ہم نے کیا یوں غم کا علاج
چھوڑ دیا ساقی کو ہم نے ٹکڑے ٹکڑے جام کیا
ہم نے فصیل شہر ستم پر دیپ جلا کر زخموں کے
سورج کو زحمت سے بچایا ظلمت کو ناکام کیا
اعجاز رحمانی
No comments:
Post a Comment