یوم پیدائش 24 نومبر 1957
حروف چند مری شاعری کے چاروں طرف
کہ جیسے پانی ہو تشنہ لبی کے چاروں طرف
ہزار بار بجھی آنکھ پھر ہوئی روشن
کچھ آئینے بھی تھے بے چہرگی کے چاروں طرف
بہت سے خواب تھے رنگین اس کے تھیلے میں
سو لوگ بیٹھ گئے اجنبی کے چاروں طرف
ہوا بدلنے کی آنے لگی ہے خوش خبری
بہت دھواں تھا گزرتی گھڑی کے چاروں طرف
ہم آنے والے زمانوں سے دور کیوں نہ رکھیں
جو الجھنیں ہیں ہماری صدی کے چاروں طرف
یہ کھیل آنکھ مچولی کا دادا پوتے میں
ہنسی کا ہالہ ہے سنجیدگی کے چاروں طرف
جزیرے چھوٹے بڑے ہیں کسی تسلی کے
مری نگاہ میں ٹہری نمی کے چاروں طرف
مکان کھولا گیا گھر میں آنے والوں پر
شجر لگائے گئے بے گھری کے چاروں طرف
چلو حمیراؔ کوئی نیک کام کرتے ہیں
امنگ بوتے ہیں مردہ دلی کے چاروں طرف
حمیرا رحمان
No comments:
Post a Comment