یوم پیدائش 19 نومبر 1945
مرنے کا پتہ دے مرے جینے کا پتہ دے
اے بے خبری کچھ مرے ہونے کا پتہ دے
اک دوسرے کی آہٹوں پہ چلتے ہیں سب لوگ
ہے کوئی یہاں جو مجھے رستے کا پتہ دے
خود آپ سے بچھڑا ہوں میں اس اندھے سفر میں
اے تیرگی شب مرے سائے کا پتہ دے
اس آس پہ ہر آئینے کو جوڑ رہا ہوں
شاید کوئی ریزہ مرے چہرے کا پتہ دے
گزری ہے مری عمر سرابوں کے سفر میں
اے ریگ رواں اب کسی چشمے کا پتہ دے
ہر پل کسی آہٹ پہ مرے کان لگے ہیں
جیسے ابھی کوئی ترے آنے کا پتہ دے
بکھرا ہوا ہوں صدیوں کی بے انت تہوں میں
مجھ کو کوئی کھوئے ہوئے لمحے کا پتہ دے
دہلیز دلاسا ہے نہ دیوار اماں ہے
اے در بدری میرے ٹھکانے کا پتہ دے
ہوں قید حصار رگ گرداب میں سرمدؔ
کوئی نہیں جو مجھ کو کنارے کا پتہ دے
سرمد صہبائی
No comments:
Post a Comment