Urdu Deccan

Saturday, November 20, 2021

سرمد صہبائی

 یوم پیدائش 19 نومبر 1945


مرنے کا پتہ دے مرے جینے کا پتہ دے

اے بے خبری کچھ مرے ہونے کا پتہ دے


اک دوسرے کی آہٹوں پہ چلتے ہیں سب لوگ

ہے کوئی یہاں جو مجھے رستے کا پتہ دے


خود آپ سے بچھڑا ہوں میں اس اندھے سفر میں

اے تیرگی شب مرے سائے کا پتہ دے


اس آس پہ ہر آئینے کو جوڑ رہا ہوں

شاید کوئی ریزہ مرے چہرے کا پتہ دے


گزری ہے مری عمر سرابوں کے سفر میں

اے ریگ رواں اب کسی چشمے کا پتہ دے


ہر پل کسی آہٹ پہ مرے کان لگے ہیں

جیسے ابھی کوئی ترے آنے کا پتہ دے


بکھرا ہوا ہوں صدیوں کی بے انت تہوں میں

مجھ کو کوئی کھوئے ہوئے لمحے کا پتہ دے


دہلیز دلاسا ہے نہ دیوار اماں ہے

اے در بدری میرے ٹھکانے کا پتہ دے


ہوں قید حصار رگ گرداب میں سرمدؔ

کوئی نہیں جو مجھ کو کنارے کا پتہ دے


سرمد صہبائی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...