یوم پیدائش 28 نومبر 1940
پیاس جو بجھ نہ سکی اس کی نشانی ہوگی
ریت پر لکھی ہوئی میری کہانی ہوگی
وقت الفاظ کا مفہوم بدل دیتا ہے
دیکھتے دیکھتے ہر بات پرانی ہوگی
کر گئی جو مری پلکوں کے ستارے روشن
وہ بکھرتے ہوئے سورج کی نشانی ہوگی
پھر اندھیرے میں نہ کھو جائے کہیں اس کی صدا
دل کے آنگن میں نئی شمع جلانی ہوگی
اپنے خوابوں کی طرح شاخ سے ٹوٹے ہوئے پھول
چن رہی ہوں کوئی تصویر سجانی ہوگی
بے زباں کر گیا مجھ کو تو سوالوں کا ہجوم
زندگی آج تجھے بات بنانی ہوگی
کر رہی ہے جو مرے عکس کو دھندلا ثروتؔ
میں نے دنیا کی کوئی بات نہ مانی ہوگی
نور جہاں ثروت
No comments:
Post a Comment