یوم پیدائش 30 نومبر 1913
نمائش کا سجدہ
فرشتوں کو جب سے عداوت نہیں ہے
محبت ابھی تک محبت نہیں ہے
اگر عاشقی میں سیاست نہیں ہے
حسینوں کے دل پر حکومت نہیں ہے
جھکانے کو ہر درد پہ سر تو جھکا دوں
نمائش کا سجدہ عبادت نہیں ہے
میں عاشق ہو مفلس ہوں ہے چاکدامن
مگر میرے چہرے پہ وحشت نہیں ہے
وہ اتوار کو مجھ سے مل جائیں آکر
سنیچر کے دن نیک ساعت نہیں ہے
مجھے میرے سرکار دفتر ہے پیارا
مجھے دل لگانے کی فرصت نہیں ہے
عجب کار فرما ہے ان کا تصور
کہ فرقت بھی رنج فرقت نہیں ہے
مجھے ناز بردار اپنا بنا لو
تمہاری سمجھ میں نزاکت نہیں ہے
میرے غم کدے میں نہ بجلی نہ بتی
دل جل رہا ہے تو ظلمت نہیں ہے
الٹ دیں امیروں کا یہ تخت شاہی
فقیروں کی ڈنڈے میں طاقت نہیں ہے
تمہاری ہی خاطر یہ قربانیاں ہیں
رقیبوں سے بھی مجھ کو عداوت نہیں ہے
لکھا نام اپنا وردی پہن جنگ پر جا
ذرا تجھ کو شوق شہادت نہیں ہے
اٹھالے بیاباں وحشت کو سر پر
محبت میں کیا اتنی طاقت نہیں ہے
مرا خانہء دل دیکھا تو بولے
ہے ویسے تو اچھا کھلی چھت نہیں ہے
ظریف ایسی الفت سے باز آئے ہم تو
کہ جسمیں مصیبت ہے راحت نہیں ہے
ظریف جبلپوری
No comments:
Post a Comment