اک پیکرِجمال کی تنویر دیکھ کر
تصویر ہوگیا ہوں میں تصویر دیکھ کر
دل چاہتا ہے زلفِ گرہ گیر ہی رہوں
اے شوخ تیر ے زلف کی زنجیر دیکھ کر
جنت کو دیکھنے کی تمنا جواں ہوئی
لوٹے ہیں جب سے وادئِ کشمیر دیکھ کر
صنفِ ادب میں نثر کو بھی اہمیت ملی
شبلی , حسین , حالی کی تحریر دیکھ کر
سپنے ہمارے پاس ہیں اور نیند اس کے پاس
شرمندہ ہم ہیں خواب کی تعبیر دیکھ کر
کیف و سرور پر ہے اجارہ امیر کا
پروائیاں بھی چلتی ہیں جاگیر دیکھ کر
عالم تمام حلقۂ احباب ہو گیا
تابش ترے کلام کی توقیر دیکھ کر
تابشِ رامپوری
No comments:
Post a Comment