یوم پیدائش 01 دسمبر 1914
صبح نو مغرب میں ہے بیدار بیداروں کے ساتھ
اور ہم گردش میں ہیں بے نور سیاروں کے ساتھ
چیختی کرنیں فضا کی دل کشی کو لے اڑیں
دھوپ سایوں سے لگی ہے سائے دیواروں کے ساتھ
دوش پر قابیل کے ہے لاش پھر ہابیل کی
لمحے قبریں کھودتے ہیں اپنی منقاروں کے ساتھ
نار نمرود اور گلزار براہیم ایک ہے
پھول بھی لو دے رہے ہیں آج انگاروں کے ساتھ
دیکھ اے چشم زلیخا قدر اپنے پیار کی
آج پھر یوسف کے بھائی ہیں خریداروں کے ساتھ
آل موسیٰ نے کیا عیسیٰ کو پھر بالائے دار
ہیں حواری بھی یہودی سنگ دل یاروں کے ساتھ
قبلۂ اول صلاح الدین ایوبی کو ڈھونڈ
آ ملی دیوار گریہ تیری دیواروں کے ساتھ
اے مسیحا زہر دے لیکن نہ دست غیر سے
یہ ستم اللہ اکبر اپنے بیماروں کے ساتھ
اس سیاست کی فضا میں سانس لینا ہے عذاب
دشمن اپنے ساتھ ہیں اغیار ہیں یاروں کے ساتھ
کربلا میں یکہ و تنہا حسین ابن علی
تعزیے شہروں میں ہیں لاکھوں عزاداروں کے ساتھ
دوستی کا حشر دیکھا تو کھلا ہم پر ظفرؔ
حشر میں کھل کر کریں گے دشمنی پیاروں کے ساتھ
یوسف ظفر
No comments:
Post a Comment