یوم پیدائش 01 دسمبر 1940
صدیوں کو راستے دکھا لمحوں کو سازگار کر
دل کو بنا چراغِ شب سورج کو شرمسار کر
شکر ، سکوں نصیبِ جاں ، صبر، حیات رائیگاں
سوزِ طریق زندگی لمحوں یہ اختیار کر
ان کے بغیر روح کو کیسے ملے کھلی فضا
آگ کو ہم زباں بنا دریا کو راز دار کر
مل جاؤں راہ میں اگر یہ بھی ترا نصیب ہے
میں نے یہ تجھ سے کب کہا تو میرا انتظار کر
دیکھ یہیں کہیں ہوں میں سوچ کہیں نہیں ہوں میں
اچھا ہے اپنے ذہن سے رکھ دے مجھے اتار کر
یادیں کبھی بھلا چکے، نقشِ وفا مٹا چکے
اب تو شکستہ دائرے فکر کے بے حصار کر
ایسا نہ ہو کہ راستے سارا حساب پوچھ لیں
راز ِشکستِ آرزو سب پر نہ آشکار کر
کربِ تلاشِ ذات کو تازہ ہوا سے دور رکھ
آیا ہوں تیرے سامنے سارے سوال ہار کر
اتریں گی آسمان سے اک دن زمیں پہ راحتیں
دن کو بھی رکھ نگاہ میں شب پر بھی اعتبار کر
نصیر پرواز
No comments:
Post a Comment