یوم پیدائش 08 دسمبر 1904
حسن خود جلوہ نمائی پہ ہے مجبور میاں
جانئے عشق کو ایک مجرم معذور میاں
قرب گر اور نہ بڑھ جائے تو میرا ذمہ
کھینچ کر دیکھیے اپنے کو ذرا دور میاں
مل رہی ہے ہمیں قسمت سے وہ صہبا کہ جسے
پی کے ہوتا نہیں کوئی بھی مخمور میاں
اپنی راتوں کو جو بیدار رکھا کرتے ہیں
ان کی بیداری کو درکار ہے اک صور میاں
عشق وہ نار کہ دیکھے سے دکھائی نہ پڑے
حسن وہ نور کہ رہتا نہیں مستور میاں
احترام گل و لالہ بسر و چشم مگر
بچیں کانٹوں سے یہ اپنا نہیں دستور میاں
تم جب آتے ہو تو کچھ ایسا لگا کرتا ہے
جیسے جنت سے اتر آئی ہو اک حور میاں
ہم نے سو بار بسایا اسے امیدوں سے
دل وہ بستی ہے جو رہتی نہیں معمور میاں
دار پر چڑھنے کی طاقت نہیں عرشیؔ میں ابھی
سر سے پا تک ہے شکستوں سے بدن چور میاں
مولانا امتیاز علی عرشی
No comments:
Post a Comment