یوم پیدائش 21 دسمبر 1937
دل سے حصول زر کے سبھی زعم ہٹ گئے
فکر معاش بڑھ گئی خانوں میں بٹ گئے
پھر یوں ہوا کہ مجھ سے وہ یونہی بچھڑ گیا
پھر یوں ہوا کہ زیست کے دن یونہی کٹ گئے
کھینا سکھی سکھی نہ سجن کی طرف مجھے
لینا سکھی سکھی مرے پاؤں رپٹ گئے
آئینہ اس کو دیکھ کے مبہوت ہو گیا
گلدان میں گلاب لجا کر سمٹ گئے
اخروٹ کھائیں تاپیں انگیٹھی پہ آگ آ
رستے تمام گاؤں کے کہرے سے اٹ گئے
آنے دیا نہ میرے بزرگوں نے حق پہ حرف
میدان کربلاؤں کے لاشوں سے پٹ گئے
ڈالی ندی میں ناؤ نہ برگد کے نیچے پینگ
تو کیا گیا پلٹ کے وہ سب دن پلٹ گئے
کھادیں لگیں تو چھوڑ گئیں کھیت تتلیاں
فصلیں بڑھیں تو ڈار پرندوں کے گھٹ گئے
اس سے ملی نظر تو لرزنے لگا بدن
دیدے سکھی ری دیکھ کے پریتم کو پھٹ گئے
تو شانت ہو کہ تیری مرادیں ہوئیں سپھل
بادل گرج برج کے جو آئے تھے چھٹ گئے
دیکھا تو اس کے تن پہ گرے کیوڑے کے پھول
پاؤں سے آبشار کے پانی لپٹ گئے
ناصر شہزاد
No comments:
Post a Comment