Urdu Deccan

Thursday, December 30, 2021

ناصر شہزاد

 یوم پیدائش 21 دسمبر 1937


دل سے حصول زر کے سبھی زعم ہٹ گئے

فکر معاش بڑھ گئی خانوں میں بٹ گئے


پھر یوں ہوا کہ مجھ سے وہ یونہی بچھڑ گیا

پھر یوں ہوا کہ زیست کے دن یونہی کٹ گئے


کھینا سکھی سکھی نہ سجن کی طرف مجھے

لینا سکھی سکھی مرے پاؤں رپٹ گئے


آئینہ اس کو دیکھ کے مبہوت ہو گیا

گلدان میں گلاب لجا کر سمٹ گئے


اخروٹ کھائیں تاپیں انگیٹھی پہ آگ آ

رستے تمام گاؤں کے کہرے سے اٹ گئے


آنے دیا نہ میرے بزرگوں نے حق پہ حرف

میدان کربلاؤں کے لاشوں سے پٹ گئے


ڈالی ندی میں ناؤ نہ برگد کے نیچے پینگ

تو کیا گیا پلٹ کے وہ سب دن پلٹ گئے


کھادیں لگیں تو چھوڑ گئیں کھیت تتلیاں

فصلیں بڑھیں تو ڈار پرندوں کے گھٹ گئے


اس سے ملی نظر تو لرزنے لگا بدن

دیدے سکھی ری دیکھ کے پریتم کو پھٹ گئے


تو شانت ہو کہ تیری مرادیں ہوئیں سپھل

بادل گرج برج کے جو آئے تھے چھٹ گئے


دیکھا تو اس کے تن پہ گرے کیوڑے کے پھول

پاؤں سے آبشار کے پانی لپٹ گئے


ناصر شہزاد


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...