یوم پیدائش 25 دسمبر 1942
درخت جاں پر عذاب رت تھی نہ برگ جاگے نہ پھول آئے
بہار وادی سے جتنے پنچھی ادھر کو آئے ملول آئے
نشاط منزل نہیں تو ان کو کوئی سا اجر سفر ہی دے دو
وہ رہ نورد رہ جنوں جو پہن کے راہوں کی دھول آئے
وہ ساری خوشیاں جو اس نے چاہیں اٹھا کے جھولی میں اپنی رکھ لیں
ہمارے حصے میں عذر آئے جواز آئے اصول آئے
اب ایسے قصے سے فائدہ کیا کہ کون کتنا وفا نگر تھا
جب اس کی محفل سے آ گئے اور ساری باتیں ہی بھول آئے
وفا کی نگری لٹی تو اس کے اثاثوں کا بھی حساب ٹھہرا
کسی کے حصے میں زخم آئے کسی کے حصے میں پھول آئے
بنام فصل بہار آذرؔ وہ زرد پتے ہی معتبر تھے
جو ہنس کے رزق خزاں ہوئے ہیں جو سبز شاخوں پہ جھول آئے
اعزاز احمد آذر
No comments:
Post a Comment