یوم پیدائش 02 دسمبر 1947
حق پرستی کے سزاوار ہوا کرتے تھے
ہم کبھی صاحب کردار ہوا کرتے تھے
کوئی مذہب ہو کوئی رنگ ہو مل بیٹھتے تھے
دیس میں ایسے بھی تہوار ہوا کرتے تھے
پاس تہذیب تھا اک وہ بھی زمانہ تھا کبھی
میرے دشمن بھی مرے یار ہوا کرتے تھے
اس طرح تھک کے تو بیٹھا نہیں کرتے تھے ہم
راستے پہلے بھی دشوار ہوا کرتے تھے
اب تو سوکھے ہوئے پتوں کا بھرم رکھتے ہیں
ہم کبھی شاخ ثمر دار ہوا کرتے تھے
پگڑیاں قدموں میں رکھنے کا ہنر سیکھ گئے
ہم وہی ہیں جو سر دار ہوا کرتے تھے
تاشی ظہیر
No comments:
Post a Comment