یوم پیدائش 08 دسمبر 1943
دعا ہے ، زندگی اب یوں گزار جائیں ہم
کہ تُو ہو جب بھی مُقابل تو ہار جائیں ہم
اداس لوگوں میں جانے کا قصد ہے تو یہیں
لبوں کا اپنے تبسم اتار جائیں ہم
ہے کسرِ شان ترے در کی، بے قرار آکر
یہاں سے لوَٹ کے بھی بے قرار جائیں ہم
وہاں ہے جان کا خطرہ مگر نہ جانے کیوں
یہ بے کلی ہے وہاں بار بار جائیں ہم۔
سنوارنے میں لگے ہیں وہ عاقبت اپنی
کسی غریب کی دنیا سنوار جائیں ہم
تجھے پکارنا ہے رائگاں تو مجبوراً
ترے ضمیر کو اب کے پکار جا ئیں ہم
ضمیر درویش
No comments:
Post a Comment