جہالتوں کی غلامی سے بچ نکلنے کا
سنھبل بھی جاؤ یہی وقت ہے سنبھلنے کا
بلندیاں بھی کریں گی سلام جھک کے تمھیں
شعور تم میں اگر ہے زمیں پہ چلنے کا
جو ناامیدی کے بادل فلک پہ چھاۓ ہوں
تم انتظار کرو برف کے پگھلنے کا
نڈھال ہو کے لو سورج بھی محو خواب ہوا
اے چاند تارو یہی وقت ہے نکلنے کا
میں وہ چراغ ہوں جس میں ہے عزم کا ایندھن
نہیں ہے خوف مجھے آندھیوں کے چلنے کا
شفق کے سائے میں دن رات مل رہے ہیں گلے
بڑا حسین ہے منظر یہ شام ڈھلنے کا
ہر اک سوال کا معقول دو جواب کہ شاد
نہیں یہ وقت خموشی سے ہاتھ ملنے کا
شمشاد شاد
No comments:
Post a Comment