یوم پیدائش 31 دسمبر 1943
دھڑکنیں جاگ اٹھیں پہلی ملاقات کے ساتھ
عشق چڑھتا رہا پروان محاکات کے ساتھ
اشک آنکھوں میں امنڈ آۓ ہنسی آتے ہی
مدتوں بعد کھلی دھوپ تو برسات کے ساتھ
تجھ کو سوچوں تو مہک اٹھتی ہے تنہائی مری
کوئی نسبت تو یقیناً ہے تری ذات کے ساتھ
ہجر کا سوگ منانے کی کسے فرصت ہے
رات کی بات گئی ، یار گئی رات کے ساتھ
صبح ہونے کو ہے دھڑ کا سا لگا ہے دل کو
رات گزری ہے پریشان خیالات کے ساتھ
مدتیں ہوگئیں احساس کا دربند ہوۓ
دل کا اب کوئی تعلق نہیں جذبات کے ساتھ
عمر بھر جان ہتھیلی پے رکھے جیتے رہے
گو کہ سمجھوتہ گوارہ نہ تھا حالات کے ساتھ
زندگی تیری خوشی کے لئے کیا کچھ نہ کیا
تو ملی بھی تو ملی درد کی سوغات کے ساتھ
آفتاب عارف
No comments:
Post a Comment