یوم پیدائش 31 دسمبر 1938
لکھ کر ورق دل سے مٹانے نہیں ہوتے
کچھ لفظ ہیں ایسے جو پرانے نہیں ہوتے
جب چاہے کوئی پھونک دے خوابوں کے نشیمن
آنکھوں کے اجڑنے کے زمانے نہیں ہوتے
جو زخم عزیزوں نے محبت سے دئیے ہوں
وہ زخم زمانے کو دکھانے نہیں ہوتے
ہو جائے جہاں شام وہیں ان کا بسیرا
آوارہ پرندوں کے ٹھکانے نہیں ہوتے
بے وجہ تعلق کوئی بے نام رفاقت
جینے کے لیے کم یہ بہانے نہیں ہوتے
کہنے کو تو اس شہر میں کچھ بھی نہیں بدلا
موسم مگر اب اتنے سہانے نہیں ہوتے
سینے میں کسک بن کے بسے رہتے ہیں برسوں
لمحے جو پلٹ کر کبھی آنے نہیں ہوتے
آشفتہ سری میں ہنر حرف و نوا کیا
لفظوں میں بیاں غم کے فسانے نہیں ہوتے
مخمورؔ یہ اب کیا ہے کہ بار غم دل سے
بوجھل مرے احساس کے شانے نہیں ہوتے
مخمور سعیدی
No comments:
Post a Comment