یوم پیدائش 11 جنوری 1959
کوئی دیوار نہ در باقی ہے
دشت خوں حد نظر باقی ہے
سب مراحل سے گزر آیا ہوں
اک تری راہ گزر باقی ہے
صبح روشن ہے چھتوں کے اوپر
رات پلکوں پہ مگر باقی ہے
خواہشیں قتل ہوئی جاتی ہیں
اک مرا دیدۂ تر باقی ہے
کون دیتا ہے صدائیں مجھ کو
کس کے ہونٹوں کا اثر باقی ہے
کٹ گئی شاخ تمنا عنبرؔ
نا امیدی کا شجر باقی ہے
عنبر شمیم
No comments:
Post a Comment