یوم پیدائش 14 جنوری 1927
قضا سے قرض کس مشکل سے لی عمر بقا ہم نے
متاع زندگی دے کر کیا یہ قرض ادا ہم نے
ہمیں کس خواب سے للچائے گی یہ پر فسوں دنیا
کھرچ ڈالا ہے لوح دل سے حرف مدعا ہم نے
کریں لب کو نہ آلودہ کبھی حرف شکایت سے
شعار اپنا بنایا شیوۂ صبر و رضا ہم نے
ہم اس کے ہیں سراپا ادبدا کر اس سے کیا مانگیں
اٹھایا ہے کبھی اے مدعی دست دعا ہم نے
شہیدان وفا کی منقبت لکھتے رہے لیکن
نہ کی عرضی خداؤں کی کبھی حمد و ثنا ہم نے
پرکھنے والے پرکھیں گے اسی معیار پر ہم کو
جہاں سے کیا لیا ہم نے جہاں کو کیا دیا ہم نے
وہی انساں جہاں جاؤ وہی حرماں جدھر دیکھو
بپائے خفتہ کی سیاحیٔ ملک خدا ہم نے
لٹا ذوق سفر بھی کارواں کا ایسے لگتا ہے
سنا ہر تازہ پیش آہنگ کا شور درا ہم نے
ستم آراؤ سن لو آخری برداشت کی حد تک
سہا ہر ناروا ہم نے سنا ہر ناسزا ہم نے
یہ دزدیدہ نگاہیں ہیں کہ دل لینے کی راہیں ہیں
ہمیشہ دیدہ و دانستہ کھائی ہے خطا ہم نے
کشاکش ہم سے پوچھے کوئی نا آسودہ خواہش کی
حسینوں سے بہت باندھے ہیں پیمان وفا ہم نے
کیا تکمیل نقش نا تمام شوق کی خاطر
جو تم سے ہو سکا تم نے جو ہم سے ہو سکا ہم نے
عراقیؔ کی طرح خالدؔ کو کیوں بدنام کرتے ہیں
نہ دیکھا کوئی ایسا خوش نوائے بے نوا ہم نے
عبد العزیز خالد
No comments:
Post a Comment