یوم پیدائش 15 جنوری 1927
سنی ہے روشنی کے قتل کی جب سے خبر میں نے
چراغوں کی طرف دیکھا نہیں ہے لوٹ کر میں نے
فراز دار سے اپنوں کے چہرے خود ہی پہچانے
فقیہ شہر کو جانا نہیں ہے معتبر میں نے
بھلا سورج کی طرف کون دیکھے کس میں ہمت ہے
ترے چہرے پہ ڈالی ہی نہیں اب تک نظر میں نے
یقیناً آندھیوں نے آ لیا کونجوں کی ڈاروں کو
کہ خوں آلودہ دیکھے ہیں فضا میں بال و پر میں نے
تمہارے بعد میں نے پھر کسی کو بھی نہیں دیکھا
نہیں ہونے دیا آلودہ دامان نظر میں نے
ہزاروں آرزوئیں رہ گئیں گرد سفر ہو کر
سجا رکھی ہے پلکوں پہ وہی گرد سفر میں نے
دم رخصت مری پلکوں پہ دو قطرے تھے اشکوں کے
کیا ہے زندگانی کے سفر کو مختصر میں نے
میں اپنے گھر میں خود اپنوں سے بازی ہار بیٹھا ہوں
ابھی سیکھا نہیں اپنوں میں رہنے کا ہنر میں نے
سرور انبالویؔ اپنے ہی دل میں اس کو پایا ہے
جسے اک عمر تک آواز دی ہے در بدر میں نے
سرور انبالوی
No comments:
Post a Comment