پیدائش:15 جنوری 1958
ذرا سی روشنی کے واسطے اے مہرباں میں نے
جلا ڈالا ہے دیکھو خود ہی اپنا آشیاں میں نے
ستم دیکھو اسی نے زہر گھولا زندگانی میں
جسے سمجھا کیا اب تک رفیق و راز داں میں نے
نہ پوچھو کتنے ارمانوں کی لاشیں دفن کیں میں نے
سجائی ہیں تمناؤں کی کتنی ارتھیاں میں نے
قدم راہ محبت میں سنبھل کر دوستو رکھنا
لٹایا ہے اسی رستے میں اپنا کارواں میں نے
شباب آیا ہے اشرفؔ اب شبستان تصور پر
لہو دے دے کے سینچا تھا خیال گلستاں میں نے
اشرف مولانگری
No comments:
Post a Comment