یوم پیدائش01 جنوری 1958
خوف سے کھڑکی گرتی ہے در گرتا ہے
قدموں کی آہٹ سے اب گھر گرتا ہے
زخم ہمارا خشک نظر آئے کیسے
سر پر روز نیا اک پتھر گرتا ہے
تم کیا جانو درد بھری آنکھوں کا حال
دل کی ندی میں کیسے سمندر گرتا ہے
میرا گھر اب ہونے لگا جل تھل جل تھل
کس کی آنکھوں سے پانی جھرجھر گرتا ہے
سونے خلا میں ڈھونڈ رہا ہے کوئی پیڑ
اڑتے اڑتے زخمی کبوتر گرتا ہے
اب تو انوکھا ہی ہو گیا منظر آتشؔ
قطرہ شبنم دن میں برابر گرتا ہے
محمد قربان علی آتش
No comments:
Post a Comment