یوم پیدائش 15 جنوری 1953
دوستی میں اس کے شامل بغض کا عنصر بھی تھا
پھول تھے ہاتھوں میں زیرِ آستیں خنجر بھی تھا
آج مجبوری نے مجھ کو رکھ دیا ہے کاٹ کر
ورنہ ان خود دار شانوں پر مرے اک سر بھی تھا
خوگرِ صحرا نوردی ہوگیا ہوں اس قدر
بھول بیٹھا ہوں کسی بستی میں میرا گھر بھی تھا
کون بڑھتا پھر بھلا میری مدد کے واسطے
میرا دشمن صاحبِ زر اور طاقت ور بھی تھا
پھونک ڈالے جس نے کتنے ہی غریبوں کے چراغ
آگ کے شعلوں کی زد پر آج اس کا گھر بھی تھا
حوصلہ افزائی میں میری رہا جو پیش پیش
راہ کا میری وہی سب سے بڑا پتھر بھی تھا
میں ہی تنہا تو نہیں تھا عشق میں رسوا صباؔ
ایک چھوٹا ہی سہی الزام اس کے سربھی تھا
عتیق احمد خان صبا
No comments:
Post a Comment