یوم پیدائش 01 جنوری 1942
خندہ زن مجھ پہ نہ ہو اے مری تدبیر ابھی
وہ جو چاہے تو بدل سکتی ہے تقدیر ابھی
ناوک انداز ستم تجھکو بھلاؤں کیسے
میرے سینے میں ہے پیوست ترا تیر ابھی
دست وحشت کو نہ روکا تو یقیں ہے مجھ کو
اور الجھے گی تری زلف گرہ گیر ابھی
اس کو قدرت نے عطا کی ہے کمال وسعت
تونے سمجھی ہی نہیں عشق کی توقیر ابھی
وہ گرفتار محبت ابھی آتا ہوگا
نوحہ گر ہوتی چلی آئیگی زنجیر ابھی
دل ابھی پوری طرح مائل فریاد نہیں
دل پہ کچھ اور ستم حسن ستم گیر ابھی
تجھ سے ملنا تری چاہت کا سبب کیا معنی
نقش ہے دل پہ ترے ظلم کی تصویر ابھی
اور محروم تمنا رہوں کب تک کہیئے
میرا ہی خواب ہے کیوں تشنہء تعبیر ابھی
اپنے شانوں پہ یہ زلفیں نہ بکھیرو ورنہ
یہ ہی رسوائی کی ہو جائیں گی تشہیر ابھی
اے مری جان غزل روح سخن حسن خیال
نامکمل ہے مرے عشق کی تفسیر ابھی
ایک مدت سے ہے مشتاق نگاہی پہ زوال
کار گر ہو نہیں پائی کوئی تدبیر ابھی
اسلم دہلوی
No comments:
Post a Comment