Urdu Deccan

Sunday, January 2, 2022

اسلم دہلوی

 یوم پیدائش 01 جنوری 1942


خندہ زن مجھ پہ نہ ہو اے مری تدبیر ابھی

وہ جو چاہے تو بدل سکتی ہے تقدیر ابھی


ناوک انداز ستم تجھکو بھلاؤں کیسے

میرے سینے میں ہے پیوست ترا تیر ابھی


دست وحشت کو نہ روکا تو یقیں ہے مجھ کو

اور الجھے گی تری زلف گرہ گیر ابھی


اس کو قدرت نے عطا کی ہے کمال وسعت

تونے سمجھی ہی نہیں عشق کی توقیر ابھی


وہ گرفتار محبت ابھی آتا ہوگا

نوحہ گر ہوتی چلی آئیگی زنجیر ابھی


دل ابھی پوری طرح مائل فریاد نہیں

دل پہ کچھ اور ستم حسن ستم گیر ابھی


تجھ سے ملنا تری چاہت کا سبب کیا معنی

نقش ہے دل پہ ترے ظلم کی تصویر ابھی


اور محروم تمنا رہوں کب تک کہیئے

میرا ہی خواب ہے کیوں تشنہء تعبیر ابھی


اپنے شانوں پہ یہ زلفیں نہ بکھیرو ورنہ 

یہ ہی رسوائی کی ہو جائیں گی تشہیر ابھی


اے مری جان غزل روح سخن حسن خیال

نامکمل ہے مرے عشق کی تفسیر ابھی


ایک مدت سے ہے مشتاق نگاہی پہ زوال

کار گر ہو نہیں پائی کوئی تدبیر ابھی


اسلم دہلوی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...