پیدائش: 03جنوری 1940
یہ عہد نو ہو مبارک تجھے مگر ساقی
نظام میکدہ ابتر ہے غور کر ساقی
اڑان تیز ہے اتنی کہ تھم گئے منظر
رکا رکا سا ہے لمحات کا سفر ساقی
فضا میں تیر رہے ہیں قضا کے جرثومے
بسے ہیں دشت میں بارود کے نگر ساقی
جھلس رہا ہے تعصب کی آگ میں گلشن
قیامتیں ہیں قیامت سے پیشتر ساقی
پڑے ہیں خاک پہ بے ہوش آدمی زادے
خدائی کرتے ہیں محلوں میں جانور ساقی
وہ دیکھ جہل و ضلالت کی مسند آرائی
فراز دار پر لٹکے ہیں دیدہ ور ساقی
کہاں وہ رند وہ پیمانے اور وہ صہبا
گئے زمانوں کی باتیں نہ یاد کر ساقی
مجھے خبر ہے ترے خم میں مے نہیں باقی
مرے ہی خون سے اب میرا جام بھر ساقی
فاروقؔ ارگلی
No comments:
Post a Comment