یوم پیدائش 01 جنوری
پر کٹتے گئے پر تجھے افسوس نہیں ہے
کرنا ہے تو کچھ کر تجھے افسوس نہیں ہے
اے شاہ تری قوم ہے برباد یہاں پر
جو چاہے تو کر گر تجھے افسوس نہیں ہے
فرعون سے لڑ جانے کی تاریخ بُھلا دی
اب لگنے لگا ڈر تجھے افسوس نہیں ہے
برسات جو ہو جائے چھپائے گا کہاں سر
بچنے کو نہیں گھر تجھے افسوس نہیں ہے
وعدہ ہے عبادت کا کہیں اور کہیں پر
جھکتا ہے ترا سر تجھے افسوس نہیں ہے
تدبیر نہیں کرتا حفاظت کی یہاں پر
بھٹکے ہے تو دردر تجھے افسوس نہیں ہے
بزدل کی طرح مرنے سے بہتر ہے کہ تو لڑ
مرنا ہے تو یوں مر تجھے افسوس نہیں ہے
معمولی سے ٹاپو پہ ستاتے ہیں تجھے اب
ہوتا ہے یہ اکثر تجھے افسوس نہیں ہے
مظلوم کی فریاد پہ وہ سندھ میں آنا
اب کیوں نہیں ازبر تجھے افسوس نہیں ہے
رنگینیوں کو چھوڑ صحابہ کی طرح جی
ہے لقمہ ترا تر تجھے افسوس نہیں ہے
ٹھوکر میں تری قیصر و کسریٰ وہ کبھی تھے
محور ہے ترا زر تجھے افسوس نہیں ہے
ظالم کے لیے تنگ تھی شاہد یہ ہی دنیا
کرتا ہے یہ ٹرٹر تجھے افسوس نہیں ہے
شاہد ٹانڈوی
No comments:
Post a Comment