یوم پیدائش 28 جنوری
حقیقتوں سے پرے ، واہمے کو کھینچتا ہے
مرا دماغ فقط وسوسے کو کھینچتا ہے
کسی بھی شے کو جہاں میں اکیلے چین نہیں
ہر ایک جسم کسی دوسرے کو کھینچتا ہے
میں چاہتا ہوں کہ ٹوٹےنہ پیار کی ڈوری
سو ڈھیل دیتا ہوں جب وہ سرےکو کھینچتا ہے
میں بار بار پلٹتا ہوں زندگی کی طرف
مگر یہ عشق مجھے مارنے کو کھینچتا ہے
سفر کو چھوڑ کے سب لوگ ، سننے لگتے ہیں
کسی کا گیت ہر اک قافلے کو کھینچتا ہے
ہماری بات کہانی کو طول دیتی ہے
ہمارا ذکر ہر اک واقعے کو کھینچتا ہے
دانش علی دانش
No comments:
Post a Comment