یوم پیدائش 21 جنوری 1964
سفر سے آئے تو پھر اک سفر نصیب ہوا
کہ عمر بھر کے لیے کس کو گھر نصیب ہوا
وہ ایک چہرہ جو برسوں رہا ہے آنکھوں میں
کب اس کو دیکھنا بھی آنکھ بھر نصیب ہوا
تمام عمر گزاری اسی کے کاندھے پر
جو ایک لمحہ ہمیں مختصر نصیب ہوا
ہوا میں ہلتے ہوئے ہاتھ اور نم آنکھیں
ہمیں بس اتنا ہی زاد سفر نصیب ہوا
ہوا کے رخ سے پر امید تھا بہت گلشن
پر اب کے بھی شجر بے ثمر نصیب ہوا
بلندیوں کی ہوس میں جو سب کو چھوڑ گئے
کب ان پرندوں کو اپنا شجر نصیب ہوا
لبوں سے نکلیں ادھر اور ادھر قبول ہوئیں
کہاں دعاؤں میں ایسا اثر نصیب ہوا
ادھر چھپائیں تو کھل جائیں دوسری جانب
لباس زیست ذرا مختصر نصیب ہوا
سلیمؔ چاروں طرف تیرگی کے جال گھنے
پہ ہم کو نیشتر بے ضرر نصیب ہوا
سلیم سرفراز
No comments:
Post a Comment