یوم پیدائش 21 جنوری 1944
آپ کا حسیں چہرہ جب بھی یاد آیا ہے
ذہن کے دریچے سے چاند مسکرایا ہے
دل کشی کو میں کیسے آپ سے الگ سمجھوں
چاندنی حقیقت میں چاند ہی کا سایا ہے
ٹھیک ہی تو کہتے ہیں پھر بہار آئی ہے
درد دل کا مہکا ہے، زخم مسکرایا ہے
بے خودی سی طاری ہے، کیا خبر زمانے کو
ساز کس نے چھیڑا ہے، گیت کس نے گایا ہے
تنگ آکے خلوت سے، انتہائے الفت میں
درد کے فرشتوں سے شہرِ دل بسایا ہے
زندگی عبارت ہے اشک سے، تبسم سے
ہر کسی نے کھویا ہے، ہر کسی نے پایا ہے
میری آرزوؤں کا دل نہ توڑیئے مغموم
میں نے ہر تمنا کو خونِ دل پلا یا ہے
باغیش مغموم کلکتوی
No comments:
Post a Comment