یوم پیدائش 24 فروری 1980
پانی کے شیشوں میں رکھی جاتی ہے
سندرتا جھیلوں میں رکھی جاتی ہے
چھونے کو بڑھ جاتی ہے وہ موم بدن
آگ کہاں پوروں میں رکھی جاتی ہے
چاند ترے ماتھے سے اگتا ہے چندا
رات مری آنکھوں میں رکھی جاتی ہے
ہاتھوں میں ریکھائیں پیلے موسم کی
سبز پری خوابوں میں رکھی جاتی ہے
چھو لیتی ہے جو تیرے نازک پاؤں
وہ مٹی گملوں میں رکھی جاتی ہے
رنگ جدا کرنے کے لیے چشم و لب کے
قوس قزح اندھوں میں رکھی جاتی ہے
ایسے بھی آرائش ہوتی ہے گھر کی
تنہائی کمروں میں رکھی جاتی ہے
دانیال طریر
No comments:
Post a Comment