یوم پیدائش 08 فروری 1985
سلگتی دھوپ میں ہر سائبان دے چکا ہوں
میں اس زمیں کو کئی آسمان دے چکا ہوں
وه عشق کا ہو ترے یا تری جدائی کا
اسی حیات میں سب امتحان دے چکا ہوں
تو دلنشیں ہے وفادار ہے ذہین بھی ہے
مگر میں اور کسی کو زبان دے چکا ہوں
مری زبان پہ تالا لگانے والے سنیں
میں اپنی آنکھوں سے اپنا بیان دے چکا ہوں
وہ آدمی مجھے بے چینیاں پلا رہا ہے
جسے سکھوں کا میں سارا جہان دے چکا ہوں
مجھے وجود میں لایا جہاں کی مٹی نے
یہ مٹی میں اس مٹی کو دان دے چکا ہوں
مجھے وہ فیض بلائیں گے کس طرح آخر
وہ جن لبوں کو میں اپنے نشان دے چکا ہوں
فیض خلیل آبادی
No comments:
Post a Comment