یوم پیدائش 08 فروری 1975
خواب کی شیلف پر دھری نظم
اگر سمندر مجھے راستہ دیتا
تو سفر کرتی اس قندیل کے ساتھ
جو شام کا ملگجا پھیلتے ہی
ساحل پر روشن ہو جاتی ہے
اڑتی ققنس کے ہم رکاب
افق کی مسافتوں میں
تیرتی مچھلیوں کے سنگ
کھوجتی ریگ زاروں میں
نیلگوں پانیوں کو
سرمئی پہاڑوں میں
جادوئی سرنگوں کو
لیکن میرے سرہانے
آدھے پونے خواب پڑے ہیں
اور میری شیلف پر دھرے ہیں
کانچ کے نازک برتن
سبزی کے چھلکے
گھر کی دیواروں پر
میرے بیٹے کی کھنچی لکیروں میں
ان سنی کہانیاں ہیں
جو مسکراتی کھلکھلاتی ہیں
اور باتیں کرتی ہیں آنکھوں ہی آنکھوں میں
وہ کہانیاں سنتی میں دفعتاً چونک جاتی ہوں
ادھورے خواب بھی میرے
کتنے شرمندۂ تعبیر ہوئے
مگر پھر بھی ڈرتی ہوں
کہ میری بیٹی
آدھے خواب دیکھ کر
انہیں ادھورا چھوڑ نہ دے
بوند بوند دعا اترتی ہے
دل کی زمیں پہ
پہلی بارش کی مانند
اور سیلی مٹی سے شاخ در شاخ
تمنائیں پھوٹ پڑتی ہیں
سبین علی
No comments:
Post a Comment