Urdu Deccan

Tuesday, February 8, 2022

شاد عارفی

 یوم وفات 08 فروری 1964


جذبۂ محبت کو تیر بے خطا پایا

میں نے جب اسے دیکھا دیکھتا ہوا پایا


جانتے ہو کیا پایا پوچھتے ہو کیا پایا

صبح دم دریچے میں ایک خط پڑا پایا


دیر میں پہنچنے پر بحث تو ہوئی لیکن

اس کی بے قراری کو حسب مدعا پایا


صبح تک مرے ہمراہ آنکھ بھی نہ جھپکائی

میں نے ہر ستارے کو درد آشنا پایا


گریۂ جدائی کو سہل جاننے والو

دل سے آنکھ کی جانب خون دوڑتا پایا


اہتمام پردہ نے کھول دیں نئی راہیں

وہ جہاں چھپا جا کر میرا سامنا پایا


دل کو موہ لیتی ہے دل کشیٔ نظارہ

آنکھ کی خطاؤں میں دل کو مبتلا پایا


رنگ لائی نا آخر ترک ناز برداری

ہاتھ جوڑ کر اس کو محو التجا پایا


شادؔ غیرممکن ہے شکوۂ بتاں مجھ سے

میں نے جس سے الفت کی اس کو باوفا پایا


شاد عارفی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...