یوم وفات 08 فروری 1964
جذبۂ محبت کو تیر بے خطا پایا
میں نے جب اسے دیکھا دیکھتا ہوا پایا
جانتے ہو کیا پایا پوچھتے ہو کیا پایا
صبح دم دریچے میں ایک خط پڑا پایا
دیر میں پہنچنے پر بحث تو ہوئی لیکن
اس کی بے قراری کو حسب مدعا پایا
صبح تک مرے ہمراہ آنکھ بھی نہ جھپکائی
میں نے ہر ستارے کو درد آشنا پایا
گریۂ جدائی کو سہل جاننے والو
دل سے آنکھ کی جانب خون دوڑتا پایا
اہتمام پردہ نے کھول دیں نئی راہیں
وہ جہاں چھپا جا کر میرا سامنا پایا
دل کو موہ لیتی ہے دل کشیٔ نظارہ
آنکھ کی خطاؤں میں دل کو مبتلا پایا
رنگ لائی نا آخر ترک ناز برداری
ہاتھ جوڑ کر اس کو محو التجا پایا
شادؔ غیرممکن ہے شکوۂ بتاں مجھ سے
میں نے جس سے الفت کی اس کو باوفا پایا
شاد عارفی
No comments:
Post a Comment