یوم وفات 07 فروری 2002
دیارِ غیر میں بہتر کی خواہشوں میں رہا
میں گھر سے دور رہا بس نمائشوں میں رہا
وہ شخص شام کو لوٹا تو ہاتھ خالی تھے
تلاشِ رزق کی دن بھر جو کوششوں میں رہا
بدل گیا نہ ہو دنیا کی طرح وہ بھی کہیں
میں ایک عمر سے گُم جس کی خواہشوں میں رہا
وہ وقت ہو کہ تِرا غم کہ زندگی اپنی
جو میرے ساتھ رہا آزمائشوں میں رہا
یہ میں نہیں مری تاریخ مجھ سے کہتی ہے
میرے خلاف مرا خون سازشوں میں رہا
لباس خود ہی بنا بے لباسیوں کا جواز
کبھی جو یار طرح دار بارشوں میں رہا
میں اپنا کھوج لگاتا تو کس طرح اختر
میں ماہ و سال کی ان دیکھی بندیشوں میں رہا
اختر رومانی
No comments:
Post a Comment