یوم وفات 07 فروری 2007
جینے کے طلب گار کو مرنے نہیں دیتا
آئینہ اگر ان کو سنورنے نہیں دیتا
کیا دبدبہ حسن ہے کیا رعب جوانی
چہرے پہ نگاہوں کو ٹھہرنے نہیں دیتا
یہ خوف کہ دنیا تجھے بدنام نہ کر دے
مجھ کو تری بستی سے گزرنے نہیں دیتا
کیا جانے کسے اپنا بنانے کا ارادہ
پل بھر تری زلفوں کو بکھرنے نہیں دیتا
کابل بھی گیا ہاتھ سے بغداد بھی لیکن
یہ وقت ہمیں آہ بھی بھرنے نہیں دیتا
گھر بیٹھے رضا خواب کسی تاج محل کا
انسان کو پستی سے ابھرنے نہیں دیتا
رضا جونپوری
No comments:
Post a Comment