یوم پیدائش 04 فروری 1936
شور دریا ہے کہانی میری
پانی اس کا ہے روانی میری
کچھ زیادہ ہی بھلی لگتی ہے
مجھ کو تصویر پرانی میری
جب بھی ابھرا ترا مہتاب خیال
کھل اٹھی رات کی رانی میری
بڑھ کے سینے سے لگا لیتا ہوں
جیسے ہر غم ہو نشانی میری
مہرباں مجھ پہ ہے اک شاخ گلاب
کیسے مہکے نہ جوانی میری
پھر ترے ذکر کی سرسوں پھولی
پھر غزل ہو گئی دھانی میری
کچھ تو اعمال برے تھے اپنے
کچھ ستاروں نے نہ مانی میری
لکھی جائے گی ترے برف کے نام
جو تمنا ہوئی پانی میری
تم نے جو بھی کہا میں نے مانا
تم نے اک بات نہ مانی میری
مختصر بات تھی جلدی بھی تھی کچھ
اس پہ کچھ زود بیانی میری
باقر نقوی
No comments:
Post a Comment