Urdu Deccan

Friday, February 25, 2022

فیض احمد فیض

 یوم پیدائش 13 فروری 1911


نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں 

چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے 

جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے 

نظر چرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے 

ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظم بست و کشاد 

کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد 


بہت ہے ظلم کے دست بہانہ جو کے لیے 

جو چند اہل جنوں تیرے نام لیوا ہیں 

بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی 

کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں 

مگر گزارنے والوں کے دن گزرتے ہیں 

ترے فراق میں یوں صبح و شام کرتے ہیں 


بجھا جو روزن زنداں تو دل یہ سمجھا ہے 

کہ تیری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہوگی 

چمک اٹھے ہیں سلاسل تو ہم نے جانا ہے 

کہ اب سحر ترے رخ پر بکھر گئی ہوگی 

غرض تصور شام و سحر میں جیتے ہیں 

گرفت سایۂ دیوار و در میں جیتے ہیں 


یوں ہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق 

نہ ان کی رسم نئی ہے نہ اپنی ریت نئی 

یوں ہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول 

نہ ان کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی 

اسی سبب سے فلک کا گلہ نہیں کرتے 


ترے فراق میں ہم دل برا نہیں کرتے 

گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے 

یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں 

گر آج اوج پہ ہے طالع رقیب تو کیا 

یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں 

جو تجھ سے عہد وفا استوار رکھتے ہیں 

علاج گردش لیل و نہار رکھتے ہیں 


فیض احمد فیض


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...