یوم پیدائش01 فروری 1947
جنوں والوں سے ہرگز دشت پیمائی نہ جائے گی
ہزاروں شہر رکھ دو ، ان کی تنہائی نہ جائے گی
ہمیشہ پیار کا بادل ہی بن کر میں تو برسا ہوں
فضا جو بھی ہو مجھ سے آگ برسائی نہ جائے گی
تمھیں جانا ہے جاؤ توڑ دو سب پیار کے رشتے
تمھارے ساتھ تو اس گھر کی انگنائی نہ جائے گی
پرندوں کو فضا میں روک لیں گے روکنے والے
عقابوں کو مگر زنجیر پہنائی نہ جائے گی
میں بوسہ ریت کا لے کر ہوا ہوں پھر ترو تازہ
مرے چہرے سے ہرگز اب یہ رعنائی نہ جائے گی
ارے ویرانیو! جاؤ ٹھکانا اور ہی ڈھونڈو
یہ وہ آنکھیں ہیں جن کی خواب آرائی نہ جائے گی
کسی کی یاد کی ہے چاندنی چھٹکی ہوئی گھر میں
جھٹک دو لاکھ ذہنوں سے یہ ہرجائی نہ جائے گی
خالق عبداللہ
No comments:
Post a Comment