یوم پیدائش 01 فروری 1994
آنکھ کُھلتے ہی مُلاقات ادھوری رہ جائے
گویا اک خواب کی خیرات ادھوری رہ جائے
تاکہ تُو سمجھے بچھڑنے کی اذیت کیا ہے
آخری کال ہو اور بات ادھوری رہ جائے
زندگی خواجہ سراؤں کی طرح ہو جیسے
ایک پہلو کے سبب ذات ادھوری رہ جاٸے
ایسے لیٹی ہے مرے دل میں اداسی اب تو
جیسے دلہن کی نئی رات ادھوری رہ جائے
میں ترے بعد کسی پر بھی مکمل نہ کھُلا،
ایسے ملتا ہوں، مُلاقات ادھوری رہ جائے
لوٹ آٶ۔۔۔۔ مرے بچھڑے ہوٸے پیارے لوگو
اِس سے پہلے کہ مری ذات ادھوری رہ جائے
حسنین آفتاب
No comments:
Post a Comment