Urdu Deccan

Tuesday, February 1, 2022

حسنین آفتاب

 یوم پیدائش 01 فروری 1994


آنکھ کُھلتے ہی مُلاقات ادھوری رہ جائے

گویا اک خواب کی خیرات ادھوری رہ جائے


تاکہ تُو سمجھے بچھڑنے کی اذیت کیا ہے

آخری کال ہو اور بات ادھوری رہ جائے


زندگی خواجہ سراؤں کی طرح ہو جیسے

ایک پہلو کے سبب ذات ادھوری رہ جاٸے 


ایسے لیٹی ہے مرے دل میں اداسی اب تو

جیسے دلہن کی نئی رات ادھوری رہ جائے


میں ترے بعد کسی پر بھی مکمل نہ کھُلا،

ایسے ملتا ہوں، مُلاقات ادھوری رہ جائے


لوٹ آٶ۔۔۔۔ مرے بچھڑے ہوٸے پیارے لوگو

 اِس سے پہلے کہ مری ذات ادھوری رہ جائے

 

حسنین آفتاب


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...