یوم وفات 21 فروری 1971
دل دھڑکتا ہے تو پیغامِ سکوں ملتا ہے
ایک مدت میں یہ اندازِ جنوں ملتا ہے
کام کی چیز ہے ناکام تمنا رہنا
کچھ نہ ملنے پہ توقّع سے فزوں ملتا ہے
میں تو انساں ہوں فرشتوں کو پسینے آجائیں
جب تبسم میں نگاہوں کا فسوں ملتا ہے
کہہ رہے ہیں یہ تواریخ کے روشن اوراق
رنگِ ہرنقش میں انسان کا خوں ملتا ہے
حسرتِ طور تجھے ، آتش نمرود مجھے
حسبِ توفیق نظر سوز دروں ملتا ہے
اس توجہ سے تغافل ہی کہیں بہتر تھا
اب تڑپنے میں بھی مشکل سے سکوں ملتا ہے
غیرتِ عشق پہ آتا ہے تو حرف آئے بہار
زلفِ شب رنگ کے سائے میں سکوں ملتا ہے
بہار کوٹی
No comments:
Post a Comment