یوم پیدائش 05 فروری 1999
ہر اِک لمحہ ستایا جا رہا ہُوں
تری آنکھوں سے دیکھا جا رہا ہُوں
شرابِ شوق پی کر آستاں میں
زبورِ عشق پڑھتا جا رہا ہُوں
شبِ وحشت میں اِک خونیں قلم سے
کوئی تقدیر لکھتا جا رہا ہُوں
مجھے تھوڑی سماعت دے دے اپنی
مَیں موسیٰ طُورِ سینا جا رہا ہُوں
حقارت سے مجھے مت دیکھ ملّا!
مجھے جانے دے جیسا جا رہا ہوں
ملَک نے صُور پھونکا اور یہاں مَیں
خدا کی سَمت ننگا جا رہا ہُوں
کوئی اپنی ہی کوتاہی ہے عاصمؔ
مَیں اُس کے در سے پیاسا جا رہا ہوں!
عاصم حماد عاصم
No comments:
Post a Comment