یوم پیدائش 28 فروری 1953
جو خود میں سمٹ کے رہ گئے ہیں
دنیا سے وہ کٹ کے رہ گئے ہیں
مجمع تھا یہاں پہ جن کے دم سے
وہ بھیڑ سے چھٹ کے رہ گئے ہیں
بازارِ سُخن میں ہے مول اپنا
ہم لوگ ٹکٹ کے رہ گئے ہیں
نگلا ہے زمین نے بستیوں کو
بادل سبھی پھٹ کے رہ گئے ہیں
اب کھیت میں بھوک اگے گی کیوں کر
سب کھوٹ کپٹ کے رہ گئے ہیں
کرگس نے دکھادیا ہے ٹھینگا
شہباز جھپٹ کے رہ گئے ہیں
غالب ہے، نہ میر یاد ہم کو
ہاں! روٹیاں رَٹ کے رہ گئے ہیں
جیون بھی تمام ہو رہے گا
بس موت کے جھٹکے رہ گئے ہیں
سید انور جاوید ہاشمی
No comments:
Post a Comment