Urdu Deccan

Tuesday, February 8, 2022

ضمیر یوسف

 یوم پیدائش 05 فروری 1970


وہی چراغ تو بے موت مرتے رہتے ہیں

جو ساز باز ہواؤں سے کرتے رہتے ہیں


صعوبتوں سے جو ہنس کر گزرتے رہتے ہیں

بلندیوں کو وہی زیر کرتے رہتے ہیں


ہمیشہ جن پہ ہم احسان کرتے رہتے ہیں

انھی کے تیر بھی دل میں اترتے رہتے ہیں


شکن جناب کے ماتھے پہ ہے تو حیرت کیا

ہمارے سچ سے تو آئینے ڈرتے رہتے ہیں


ہیں کامیاب وہی لوگ جو کہ خوابوں میں

نئے نئے سے حسیں رنگ بھرتے رہتے ہیں


وہ جانتے ہی نہیں جذبۂ لطیف ہے کیا

جو تتلیوں کے پروں کو کترتے رہتے ہیں


ہمارا عزم ہے چٹان کی طرح مضبوط

ہزاروں وقت کے طوفاں گزرتے رہتے ہیں


تمام رات کوئی یاد آتا رہتا ہے

ہزاروں اشک کے موتی بکھرتے رہتے ہیں


ہمارے چہرے س شادابیاں نہیں جاتیں

'یہ اور بات کہ ہر پل بکھرتے رہتے ہیں


ضمیرؔ آئینہ خانہ ہے زندگی اپنی

یہاں پہ سینکڑوں آ کر سنورتے رہتے ہیں


ضمیر یوسف


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...