یوم پیدائش 05 فروری 1970
وہی چراغ تو بے موت مرتے رہتے ہیں
جو ساز باز ہواؤں سے کرتے رہتے ہیں
صعوبتوں سے جو ہنس کر گزرتے رہتے ہیں
بلندیوں کو وہی زیر کرتے رہتے ہیں
ہمیشہ جن پہ ہم احسان کرتے رہتے ہیں
انھی کے تیر بھی دل میں اترتے رہتے ہیں
شکن جناب کے ماتھے پہ ہے تو حیرت کیا
ہمارے سچ سے تو آئینے ڈرتے رہتے ہیں
ہیں کامیاب وہی لوگ جو کہ خوابوں میں
نئے نئے سے حسیں رنگ بھرتے رہتے ہیں
وہ جانتے ہی نہیں جذبۂ لطیف ہے کیا
جو تتلیوں کے پروں کو کترتے رہتے ہیں
ہمارا عزم ہے چٹان کی طرح مضبوط
ہزاروں وقت کے طوفاں گزرتے رہتے ہیں
تمام رات کوئی یاد آتا رہتا ہے
ہزاروں اشک کے موتی بکھرتے رہتے ہیں
ہمارے چہرے س شادابیاں نہیں جاتیں
'یہ اور بات کہ ہر پل بکھرتے رہتے ہیں
ضمیرؔ آئینہ خانہ ہے زندگی اپنی
یہاں پہ سینکڑوں آ کر سنورتے رہتے ہیں
ضمیر یوسف
No comments:
Post a Comment