یوم پیدائش 22 فروری 1952
ائیرپورٹ اسٹیشن سڑکوں پر ہیں کتنے سارے لوگ
جانے کون سے سکھ کی خاطر پھرتے مارے مارے لوگ
شام گئے یہ منظر ہم نے ملکوں ملکوں دیکھا ہے
گھر لوٹیں بوجھل قدموں سے بجھے ہوئے انگارے لوگ
سب سے شاکی خود سے نالاں اپنی آگ میں جلتے ہیں
دکھ کے سوا اور کیا بانٹیں گے ان جیسے اندھیارے لوگ
پر نم آنکھوں بوجھل دل سے کتنی بار وداعی لی
کتنا بوجھ لئے پھرتے ہیں ہم جیسے بنجارے لوگ
وہ کتنے خوش قسمت تھے جو اپنے گھروں کو لوٹ گئے
شہروں شہروں گھوم رہے ہیں ہم حالات کے مارے لوگ
رات گئے یادوں کے جنگل میں دیوالی ہوتی ہے
دیپ سجائے آ جاتے ہیں بھولے بسرے پیارے لوگ
بچپن کتنا پیارا تھا جب دل کو یقیں آ جاتا تھا
مرتے ہیں تو بن جاتے ہیں آسمان کے تارے لوگ
عذرا نقوی
No comments:
Post a Comment