یوم پیدائش 15 مارچ 1949
آنکھوں سے وہ کبھی مری اوجھل نہیں رہا
غافل میں اس کی یاد سے اک پل نہیں رہا
کیا ہے جو اس نے دور بسا لی ہیں بستیاں
آخر مرا دماغ بھی اول نہیں رہا
لاؤ تو سرّ دہر کے مفہوم کی خبر
عقدہ اگرچہ کوئی بھی مہمل نہیں رہا
شاید نہ پا سکوں میں سراغ دیار شوق
قبلہ درست کرنے کا کس بل نہیں رہا
دشت فنا میں دیکھا مساوات کا عروج
اشرف نہیں رہا کوئی اسفل نہیں رہا
ہے جس کا تخت سجدہ گہہ خاص و عام شہر
میں اس سے ملنے کے لیے بے کل نہیں رہا
جس دم جہاں سے ڈولتی ڈولی ہی اٹھ گئی
طبل و علم تو کیا کوئی منڈل نہیں رہا
سعادت سعید
No comments:
Post a Comment