یوم پیدائش 15 مارچ 1959
ہر سانس ہے کراہ مگر تم کو اس سے کیا
ہو زندگی تباہ مگر تم کو اس سے کیا
تم ہو سہیلیوں میں مگن اور میرا حال
تنہائی بے پناہ مگر تم کو اس سے کیا
تم تو ہر ایک بات پہ دل کھول کر ہنسو
بھرتا ہے کوئی آہ مگر تم کو اس سے کیا
منزل ملی نہ ساتھ تمہارا ہوا نصیب
کھوئی ہے میں نے راہ مگر تم کو اس سے کیا
سیلاب میں سروں کی فصیلیں بھی بہہ گئیں
بے جرم بے گناہ مگر تم کو اس سے کیا
اب زندگی کی مانگتے ہیں بھیک در بہ در
شاہانِ کج کلاہ مگر تم کو اس سے کیا
رفیق احمد نقشؔ
No comments:
Post a Comment